اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا :
بسم الله الرحمن الرحیم
قالَ الامامُ جَعْفَرُ بنُ محمّد الصّادقُ عليه السلام
امام جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
1۔ ہماری احادیث، احادیث نبویہ ہیں:
"حَدِيثِي حَدِيثُ أَبِي وَحَدِيثُ أَبِي حَدِيثُ جَدِّي وَحَدِيثُ جَدِّي حَدِيثُ اَلْحُسَيْنِ وَحَدِيثُ اَلْحُسَيْنِ حَدِيثُ اَلْحَسَنِ وَحَدِيثُ اَلْحَسَنِ حَدِيثُ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَحَدِيثُ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ حَدِيثُ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَحَدِيثُ رَسُولِ اَللَّهِ قَوْلُ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؛ [1]
میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث اللہ عز و جلّ کا قول ہے"۔
2۔ چالیس حدیثیں حفظ کرنے کی فضیلت
"مَنْ حَفِظَ مِنْ شِيعَتِنَا أَرْبَعِينَ حَدِيثاً بَعَثَهُ اَللَّهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ عَالِماً فَقِيهاً وَلَمْ يُعَذِّبْهُ؛ [2]
ہمارے پیروکاروں میں سے جو کوئی چالیس حدیثیں حفظ کرے خدائے متعال قیامت کے روز اس کو عالم اور فقیہ کے طور پر مبعوث فرمائے گا اور اس کو عذاب سے دوچار نہیں کرے گا"۔
3۔ اللہ کے ہاں مؤمن کی حاجت روائی کی پاداش
"قَضَاءُ حَاجَةِ اَلْمُؤْمِنِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ حِجَّةٍ مُتَقَبَّلَةٍ بِمَنَاسِكِهَا وَعِتْقِ أَلْفِ رَقَبَةٍ لِوَجْهِ اَللَّهِ وَحُمْلاَنِ أَلْفِ فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ بِسُرُجِهَا وَلُجُمِهَا؛ [3]
مؤمن کے حوائج اور ضروریات برلانا ایک ہزار مقبول حجوں، ایک ہزار غلاموں کی ازادی اور ایک ہزار تیار گھوڑے راہ خدا میں روانہ کرنے سے برتر و بالاتر ہے"۔
4۔ نماز کا محاسبہ سب سے پہلے
"اَوَّلُ مايُحاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلاةُ، فَاِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ سائِرُ عَمَلِهِ، وَاِذا رُدَّتْ رُدَّ عَلَيْهِ سائِرُ عَمَلِهِ؛ [4]
خدا کی بارگاہ میں سب سے پہلے نماز کا احتساب ہوگا؛ چنانچہ اگر انسان کی نماز قبول ہو تو اس کے دوسرے اعمال بھی قبول ہونگے اور اگر اس کی نماز ردّ ہوجائے تو اس کے دوسرے اعمال بھی ردّ ہونگے"۔
5۔ چار رویئے اور چار بلائیں ساتھ ساتھ
"إِذَا فَشَتْ أَرْبَعَةٌ ظَهَرَتْ أَرْبَعَةٌ؛ إِذَا فَشَى الزِّنَا ظَهَرَتِ الزَّلازِلُ؛ وَإِذَا أُمْسِكَتِ الزَّكَاةُ هَلَكَتِ الْمَاشِيَةُ؛ وَإِذَا جَارَ الحُكَّامُ في القَضاءِ أُمسِكَ القَطرُ مِنَ السَّمَاءِ؛ وإِذَا خُفِرَتِ الذِّمَّةُ نُصِرَ المُشرِكونَ عَلى المُسلِمينَ؛ [5]
جس معاشرے میں چار چیزیں عام اور اعلانیہ ہوجائیں چار مصیبتیں اور بلائیں اس معاشرے کو گھیر لیتی ہیں: زنا عام ہوجائے تو بکثرت زلزلے آئیں گے؛ زکوة اور خمس دینے سے امتناع کیا جائے، تو پالتو جانور [جیسے بھیڑ بکریاں، اونٹ، گائے بیل وغیرہ] تلف ہونگے؛ حکام اور قاضی ستم اور ناانصافی کی راہ اپنائیں، تو خدا کی رحمت کی بارشیں برسنا بند ہونگی؛ اور اگر ذمی کفار کو تقویت ملے تو مشرکین مسلمانوں پر غلبہ پائیں گے"۔
6۔ بھائی پر بہتان کی سزا
"مَنْ عَابَ أَخَاهُ بِعَيْبٍ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ اَلنَّارِ؛ [6]
جو شخص اپنے برادر مؤمن پر تہمت و بہتان لگائے اور اس کی عیب جوئی کرے، وہ دوزخی ہے"۔
7۔ خاموشی کے فوائد
"الصَّمْتُ كَنْزٌ وافِرٌ وَزَيْنُ الْحِلْمِ وَسَتْرُالْجَاهِلِ؛ [7]
خاموشی ایک بیش بہاء خزانہ، حلم اور بردباری کی زینت اور نادان شخص کے جہل و نادانی چھپانے کا ذریعہ ہے"۔
8۔ دوستی اور مصاحبت کی شرط
"إِصْحَبْ مَنْ تَتَزَيَّنُ بِهِ وَلا تَصْحَبْ مَنْ يَتَزَّيَنُ لَكَ؛ [8]
ایسے شخص کے ساتھ دوستی اور مصاحبت کرو جو تمہاری زینت کا باعث ہو اور ایسے شخص سے دوستی اور مصاحبت نہ کرو جو اپنے اپ کو تمہارے لئے نیک ظاہر کرتا ہے"۔
9۔ تین خصلتیں مؤمن کے کمال کا ذریعہ
"كَمالُ الْمُؤْمِنِ فى ثَلاثِ خِصالٍ: الْفِقْهُ فى دينِهِ وَالصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ وَالتَّقْديرُ فِى الْمَعيشَةِ؛ [9]
مؤمن کا کمال تین خصلتوں میں ہے: دین کے مسائل و احکام میں سمجھ بوجھ، سختیوں میں صبر و بردباری، اور زندگی کے معاملات میں منصوبہ بندی اور حساب و کتاب کی پابندی"۔.
10۔ مساجد میں حاضری کی ضرورت اور فوائد
"عَلَيْكُمْ بِأَتْيَانِ الْمَسَاجِدِ فَإِنَّهَا بُيُوتُ اللَّهِ فِي الاَرْضِ ومَنْ أَتاها مُتَطَهِّراً طَهَّرَهُ اللَّهُ مِن ذُنُوبِهِ وكُتِبَ مِن زُوَّارِهِ فَأَكْثِرُوا فِيهَا مِنَ الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ؛ [10]
تم پر لازم ہے کہ مساجد میں حاضری دیا کرو، کیونکہ مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں اور جو شخص پاک و طاہر ہوکر مسجد میں حاضر ہوگا، خدائے تعالی اس کو گناہوں سے پاک کر دیتا اور اسے اپنا دیدار و زیارت کرنے والوں کے زمرے میں قرار دیتا ہے، چنانچہ مساجد میں زیادہ سے زیادہ نماز اور دعا بجا لایا کرو"۔
11۔ نماز فجر کے بعد کا ذکر خاص
"مَن قالَ بَعْدَ صَلوةِ الصُّبْحِ قَبْلَ انْ يَتَكَلَّمَ: "بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاللَّهِ الْعَليِّ الْعَظيمِ" يُعيدُها سَبْعَ مَرّاتٍ، دَفَعَ اللّهُ عَنْهُ سَبْعينَ نَوْعاً مِنْ أَنْوَاعِ الْبَلَاءِ، أَهْوَنُهَا الْجُذَامُ وَالْبَرَصُ؛ [11]
جو شخص نماز فجر کے بعد کوئی بھی بات کئے بغیر سات مرتبہ "بسم اللّہ الرّحمن الرّحيم، لا حول و لا قُوَّةَ إلَّا باللّه الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ" کی تلاوت کرے گا خدائے متعال 70 قسم کے امراض و آفات اور بلاؤں کو اس سے دور فرماتا ہے جن میں سب سے ساده اور معمولی سا مرض جذام اور برص ہے"۔
12۔ وضو کے بعد منہ ہاتھ کو خشک نہ کرے کا ثواب
"مَنْ تَوَضَّأ وَتَمَنْدَلَ كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةٌ وَمَنْ تَوَضَّأ وَلَمْ يَتَمَنْدَلْ حَتّى يَجُفَّ وُضُوئُهُ، كُتِبَ لَهُ ثَلاثُونَ حَسَنَةً؛ [12]
جو شخص وضو کرے اور اسے تولیے کے ذریعے خشک کردے اس کے لئے صرف ایک حسنہ ہے اور اگر خشک نہ کرے یہاں تک کہ خود بخود خشک ہوجائے تو اس کے لئے 30 حسنات ہیں"۔
13۔ مؤمن بھائی کے گھر میں افطار کی عظمت
"لَاِفْطارُكَ فى مَنْزِلِ أَخيكَ أَفْضَلُ مِنْ صِيَامِكَ سَبْعينَ ضِعْفاً؛ [13]
اپنے مؤمن بھائی کے گھر میں تمہارا روزے کا افطار کرنا تمہارے روزے سے 70 گنا زیادہ افضل ہے"۔
14۔ ابلے ہوئے پانی سے افطار
"إِذَا أَفْطَرَ اَلرَّجُلُ عَلَى اَلْمَاءِ اَلْفَاتِرِ نَقَّى كَبِدَهُ وَغَسَلَ اَلذُّنُوبَ مِنَ اَلْقَلْبِ وَقَوَّى اَلْبَصَرَ وَاَلْحَدَقَ؛ [14]
اگر انسان ابلے ہوئے پانی سے افطار کرے اس کا جگر پاک او سالم رہے گا اور اس کاقلب کدورتوں سے پاک هوگا اور اس کی آنکھوں کا نور بڑھے گا اور انکھیں روشن ہونگی"۔
15۔ قرآن کو سامنے رکھ کر تلاوت کرنے کے فوائد
"مَنْ قَرَأَ القُرْآنَ فِي المُصْحَفِ مُتِّعَ بِبَصَرِهِ وَخُفِّفَ عَنْ وَالِدَيهِ وَإِنْ كَانَا كَافِرَينِ؛ [15]
جو شخص قران مجید کو سامنے رکھ کر اس کی تلاوت کرے گا اس کی انکھوں کی روشنی سے بہرہ ور ہوگا؛ نیز اس کے والدین کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوگا خواه وه کافر ہی کیوں نہ ہوں"۔
16۔ سورہ توحید کی فضیلت
"مَنْ قَرَءَ قُلْ هُوَ اللّهُ احَدٌ مَرَّةً واحِدَةً فَكَانَّمَا قَرَءَ ثُلْثَ الْقُرآنِ وَثُلْثَ التُّوْرَاةِ وَثُلْثَ الإِنْجِيلِ وَثُلْثَ الزَّبُورِ؛ [16]
جو شخص ایک مرتبہ "قل هو الله أحد..." کی تلاوت کرے گویا اس نے ایک تہائی قران، ایک تہائی توریت اور ایک تہائی انجیل کی تلاوت کی ہو"۔
17۔ پھل دھوکر کھا لیا کرنا
"إِنَّ لِكُلِّ ثَمَرَةٍ سَمّاً فَإِذَا أَتَيْتُمْ بِهَا فَمَسُّوهَا بِالْمَاءِ أَوِ اغْمِسُوهَا فِي الْمَاءِ يَعْنِي اغْسِلُوهَا؛ [17]
ہر پهل کا اپنا زہر ہوتا ہے [اور یہ جراثیموں سے آلودہ ہوتے ہیں] جب بھی پهل کهانا چاہو تو پہلے اس پر پانی چھڑکو، یا اسے پانی میں بهگو لو، یعنی اسے دھو لو"۔
18۔ شلجم کے فوائد
"عَلَيْكُمْ بِالشَّلْجَمِ، فَكُلُوهُ وَأَدِيمُوأَكْلَهُ وَاكْتُمُوهُ إلَّا عَنْ أَهْلِهِ، فَمَا مِنْ أَحَدٍ إلَّا وَبِهِ عِرْقٌ مِنَ الْجُذَامِ، فَأَذِيبُوهُ بِأَكْلِهِ؛ [18]
شلجم کو اہميّت دو اور مسلسل کهاتے رہو اور اسے [اور اس کے فوائد کونا اہلوں سے] چھپائے رکھو اور صرف اہل انسانوں کے لئے آشکار کرو؛ اور ہر شخص میں جذام کی رگ موجود ہے پس شلجم کها کر اس کاخاتمہ کردو"۔
19۔ دعا کی قبولیت کے چار اوقات
"يُسْتَجَابُ اَلدُّعَاءُ فِي أَرْبَعَةِ مَوَاطِنَ فِي اَلْوَتْرِ وَبَعْدَ اَلْفَجْرِ وَبَعْدَ اَلظُّهْرِ وَبَعْدَ اَلْمَغْرِبِ؛ [19]
چار اوقات میں دعا مستجاب ہوتی ہے: نماز وتر کے وقت (تہجد میں)، نماز فجر کے بعد، نماز ظہر کے بعد، نماز مغرب کے بعد"۔
20۔ شب جمعہ 10 مرحوم مؤمنون کے لئے دعا
"مَنْ دَعالِعَشْرَةٍ مِنْ اخْوانِهِ الْمَوْتى لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ اوْجَبَ اللّهُ لَهُ الْجَنَّةَ؛ [20]
جو شخص شب جمعہ دنیا سے رخصت ہونے والے 10 مؤمن بهائیوں کے لئے مغفرت کی دعا کرے خدائے متعال اس پر جنت واجب فرمائے گا"۔
جاری ہے
[1]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج1، ص53۔
[2]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الامالی، ص253.
[3]۔ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل طبرسی (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص148۔
[4]۔ الحرالعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج3، ص22۔
[5]۔ الشیخ الصدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص524۔۔
[6]۔ الشیخ المفید، مجمد بن محمد العکبری، الاختصاص، ص240۔
[7]۔ البحرانی الاصفہانی، عبداللہ بن نور اللہ، ج20، ص779؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج9، ص16۔
[8]۔ الطبرسی، حسن بن فضل، (امین الاسلام کے فرزند)، مکارم الاخلاق، ج1، ص251۔
[9]۔ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص666؛ الطبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص278۔
[10]۔ الشیخ الصدوق، الامالی، ص440۔
[11]۔ الشیخ الطوسی، الامالی، ص415۔
[12]۔ الکلینی، الکافی، ج3، ص70۔
[13]۔ الشیخ الصدوق، من لايَحضرہ الفقيہ، ج2، ص51۔
[14]۔ الکلینی، الکافی، ج4، ص152۔
[15]۔ الکلینی، الکافی، ج2، ص613۔
[16]۔ الشیخ الصدوق، التوحید، ص95۔
[17]۔ الکلینی، الکافی، ج6، ص350۔
[18]۔ الطبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ج1، ص207۔
[19]۔ ابن فہد حلی، أحمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ج1، ص67۔
[20]۔ الحر العاملی، وسائل الشیعہ، ج2، ص124۔
آپ کا تبصرہ